Thursday 1 September 2011

خوشبوؤں‌ کی بارش تھی، چاندنی کا پہرہ تھا

خوشبوؤں‌ کی بارش تھی، چاندنی کا پہرہ تھا
میں بھی اُس شبستاں‌ میں ایک رات ٹھہرا تھا

تو مری مسیحائی جان! کس طرح‌کرتا
تیری جھیل آنکھوں‌سے میرا زخم گہرا تھا

میں‌ نے اس زمانے میں‌ تیرے گیت گائے ہیں
تیرا نام لینا بھی جب گناہ ٹھہرا تھا

اس گھڑی نبھایا تھا اس نے وصل کا وعدہ
جب تمام رستوں‌ پر چاندنی کا پہرہ تھا

رنگ یاد ہے اس کا شام کے دھندلکے میں
آنسوؤں‌ سے‌ تر چہرہ کس قدر سنہرا تھا

No comments:

Post a Comment