Tuesday, 12 July 2011

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا

کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
فصیل نفرت گرا رہا ھوں
میں گئے دنوں کو بھلا رہا ھوں
وہ اپنے وعدے سے پھر گیا ھے
میں اپنے وعدے نبھا رہا ھوں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا
نہ دل میں کوئی ملال رکھے
ھمیشہ اپنا خیال رکھے
اپنے سارے غم مجھ کو دے دے
اور تمام خوشیاں سنبھال رکھے
کہیں ملے تو اسے یہ کہنا
میں تنہا ساون بتا چکا ھوں
میں سارے ارماں جلا چکا ھوں
جو شعلے بھڑکے تھے خواھشوں کے
وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ھوں

No comments:

Post a Comment