Thursday 21 July 2011

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں

حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ھے کوئی

تم چلے ھو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شور زنجیر

اور صحرا میں کوئی نقش کف پا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریہء جاں گزرے

دیکھتا کوئی نہیں ھے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

کس کو نیرنگی ایام کی صورت دکھلائیں

رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں

No comments:

Post a Comment