Tuesday 12 July 2011

یہ زمانے کی وفائیں‌میرے کام کی نہیں

یہ زمانے کی وفائیں‌میرے کام کی نہیں۔
مجھے اُس کی وفا چاہیے کسی عام کی نہیں۔

اُس کی تو اِک مُسکراہٹ بھی انمول تھی،
یہ تمام مُسکراہٹیں کسی دام کی نہیں۔

مجھے غم ہے تو اُس کے چِھن جانے کا ہے،
پروا مجھ پر لگے الزام کی نہیں۔

میرا ہاتھ دیکھ کر نجومی یہ بولا،
بہت سی چاہتیں تیرے لیے باقی ہیں‌لیکن،
تیرے ہاتھ میں کوئی بھی لکیر اُس کے نام کی نہیں۔

No comments:

Post a Comment